کوچے میں اپنے دے وہ صنم مجھ کو گر جگہ
باقی رہے نہ سجدہ سے بالشت بھر جگہ
دل سے نہیں نکلتا کسی طرح تیرِ غم
پکڑی ہے اس نے چارہ گرو اس قدر جگہ
وہ کون ہے کہ جسں کے لیے یہ شعاعِ مہر
کھٹکے سے باغبان کے چمن میں نہیں رہی
بلبل کے بیٹھنے کے لیے شاخ پر جگہ
آ بیٹھا میرے دل میں خدنگِ نگاہِ یار
بہتر جو اس سے کوئی نہ آئی نظر جگہ
دَیر و حرم میں جا کے اسے شیخ و برہمن
کیا ڈھونڈتے ہیں وہ تو ہے موجود ہر جگہ
تکیہ بنا کے بیٹھ رہیں ہم فقیر وار
ہاتھ آئے کوئے یار میں گر اے ظفرؔ جگہ
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment