عشق کا لطف غم سے اٹھتا ہے
غم جو اٹھتا ہے ہم سے اٹھتا ہے
فتنہ ان کے قدم سے اٹھتا ہے
ہر قدم کس ستم سے اٹھتا ہے
دیکھیے کیا فساد قاصد پر
اس کی کافر نگاہ کے اٹھتے ہی
شور دیر و حرم سے اٹھتا ہے
ظلم تیرا اٹھائے جاتے ہیں
جب تک اے یار ہم سے اٹھتا ہے
کس سے اٹھتا ہے صدمۂ الفت
یہ ہمارے ہی دم سے اٹھتا ہے
ہم پہ کیجیے جفا وفا آمیز
کہ ستم بھی کرم سے اٹھتا ہے
گو قیامت اٹھے مگر یہ دل
کوئی بیت الصنم سے اٹھتا ہے
گر نہ ٹھکرائے وہ تو پھر اے داغؔ
کون خوابِ عدم سے اٹھتا ہے
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment