Monday 14 March 2016

عشق کا لطف غم سے اٹھتا ہے

عشق کا لطف غم سے اٹھتا ہے
غم جو اٹھتا ہے ہم سے اٹھتا ہے
فتنہ ان کے قدم سے اٹھتا ہے
ہر قدم کس ستم سے اٹھتا ہے
دیکھیے کیا فساد قاصد پر
میری طرزِ رقم سے اٹھتا ہے
اس کی کافر نگاہ کے اٹھتے ہی
شور دیر و حرم سے اٹھتا ہے
ظلم تیرا اٹھائے جاتے ہیں
جب تک اے یار ہم سے اٹھتا ہے
کس سے اٹھتا ہے صدمۂ الفت
یہ ہمارے ہی دم سے اٹھتا ہے
ہم پہ کیجیے جفا وفا آمیز
کہ ستم بھی کرم سے اٹھتا ہے
گو قیامت اٹھے مگر یہ دل
کوئی بیت الصنم سے اٹھتا ہے
گر نہ ٹھکرائے وہ تو پھر اے داغؔ
کون خوابِ عدم سے اٹھتا ہے

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment