Monday, 14 March 2016

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مِری مان جائیے
الله! تیری شان کے قربان جائیے
بگڑے ہوئے مزاج کو پہچان جائیے
سیدھی طرح نہ مانئے گا مان جائیے
کس کا ہے خوف روکنے والا ہی کون ہے
ہر روز کیوں نہ جائیے، مہمان جائیے
محفل میں کس نے آپ کو دل میں چھپا لیا
اتنوں میں کون چور ہے، پہچان جائیے
ہیں تیوری میں بل تو نگاہیں پھری ہوئی
جاتے ہیں ایسے آنے سے اوسان جائیے
دو مشکلیں ہیں ایک جتانے میں شوق کے
پہلے تو جان جائیے،۔ پھر مان جائیے
انسان کو ہے خانۂ ہستی میں لطف کیا
مہمان آئیے،۔۔ تو پشیمان جائیے
گو وعدۂ وصال ہو جھوٹا مزا تو ہے
کیونکر نہ ایسے جھوٹے کے قربان جائیے
رہ جاۓ بعدِ وصل بھی چیٹک لگی ہوئی
کچھ رکھئے کچھ نکال کے ارمان جائیے
اچھی کہی کہ غیر کے گھر تک زرا چلو
میں آپ کا نہیں ہوں نگہبان،۔۔ جائیے
آۓ ہیں آپ غیر کے گھر سے کھڑے کھڑے
یہ اور کو جتائیے احسان،۔۔ جائیے
دونوں سے امتحانِ وفا پر یہ کہہ دیا
منوائیے رقیب کو،۔۔ یا مان جائیے
کیا بدگمانیاں ہیں انہیں مجھ کو حکم ہے 
گھر کے خدا کے بھی نہ مہمان جائیے
کیا فرض ہے کہ سب مِری باتیں قبول ہیں
سن سن کے کچھ نہ مانئے کچھ مان جائیے
سودائیانِ زلف میں کچھ تو لٹک بھی ہو 
جنت میں جائیے تو پریشان جائیے 
دل کو جو دیکھ لو تم یہی پیار سے کہو
قربان جائیے،۔ تِرے قربان جائیے
جانے نہ دوں گا آپ کو بے فیصلہ ہوۓ
دل کے مقدمے کو ابھی چھان جائیے
یہ تو بجا کہ آپ کو دنیا سے کیا غرض
جاتی ہے جس کی جان اسے جان جائیے
غصے میں ہاتھ سے یہ نشانی نہ گر پڑے
دامن میں لے کے میرا گریبان جائیے
یہ مختصر جواب ملا عرضِ وصل پر 
دل مانتا نہیں کہ تِری مان جائیے
وہ آزمودہ کار تو ہے گر ولی نہیں
جو کچھ بتائیے داغؔ اسے مان جائیے

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment