Monday, 14 March 2016

خرید کر دل عاشق کو یار لیتا جا

خرید کر دلِ عاشق کو یار لیتا جا
نہ ہوں جو دام گِرہ میں ادھار لیتا جا
نہ چھوڑ طائرِ دل کو ہمارے اے صیاد
یہ اپنے ساتھ ہی اپنا شکار لیتا جا
نکل کے جلد نہ جا اس قدر توقف کر
دعائے خیر،۔ دلِ بے قرار لیتا جا
عدم کو جانے لگا میں تو بولی یہ تقدیر
کہ داغِ عشق پئے یادگار لیتا جا
فلک سے کی ہوسِ عشق جب کبھی میں نے
ندائیں آئیں غمِ بے شمار لیتا جا
مزے وصال کے اے دل خیال یار میں ہیں
خوشی کے ساتھ شبِ انتظار لیتا جا
چلا تھا زخمی تیغِ نگاہ میں ہو کر
کہا ادا نے کہ میرا بھی وار لیتا جا
ہوا کے جھونکے سے کہتا ہوں میں جب آتا ہوں
کسی کے دل سے اڑا کے غبار لیتا جا
وہ جان لیں مِری افسردگی کو اے قاصد
بجھی ہوئی کوئی شمعِ مزار لیتا جا
وہ مجھ سے کہتے ہیں جب بن سنور کے بیٹھے ہیں
بلائیں ہاتھوں سے تو بار بار لیتا جا
اسے بھی کھیل سمجھ تو کہ ہر ادا کے ساتھ
ہمارے دل سے شکیب و قرار لیتا جا
نہ اٹھ سکے گی یہ کل پیش داورِ محشر
نہ بے گناہوں کا گردن پہ بار لیتا جا
مِرے مزار کو تُو اس طرح  سے کر پامال
کہ بانکپن کی بھی اے شہسوار لیتا جا
مزا جبھی ہے کہ بھر بھر کے داغؔ جامِ شراب
وہ دیتے جائیں تو اے بادہ خوار لیتا جا

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment