Monday 14 March 2016

عمر جینے میں جو گنوائی ہے

عمر جینے میں جو گنوائی ہے
بس وہی اپنے کام آئی ہے
قیدِ الفت سے بھاگنے والو
یہ اسیری نہیں رہائی ہے
بارہا حسن کے تبسم نے
درد و غم کی جھلک دکھائی ہے
ایک دشوار و تلخ یکجائی
عاشقی عمر بھر جدائی ہے
ہم نے لکھا لہو سے عہدِ وفا
ہم پہ الزامِ بے وفائی ہے
وجدؔ برساؤ پھول یا شعلے
اب یہی شرطِ لب کشائی ہے

سکندر علی وجد

No comments:

Post a Comment