Saturday 12 March 2016

نہ جانے کہاں جی ڈبوئے رہے ہیں

نہ جانے کہاں جی ڈبوئے رہے ہیں
کلیم آج کل کھوئے کھوئے رہے ہیں
خودی بھی نہیں بیخودی بھی نہیں ہے
نہ جاگے رہے ہیں نہ سوئے رہے ہیں
جو اشعار نکلے ہیں ان کی زباں سے
انہیں کے لہو میں ڈبوئے رہے ہیں
سمیٹے رہے ہیں یہی درد سب کا
یہ تڑپے ہیں اور لوگ سوئے رہے ہیں
بلائے تو کیا کوئی ان کو بلائے
جہاں جائے ہیں روئے روئے رہے ہیں

کلیم عاجز

No comments:

Post a Comment