کس خرابے میں یہ انسان چلے آتے ہیں
زندگی کرنے کو نادان چلے آتے ہیں
تم مجھے ره سے ہٹاؤ گے تو پچھتاؤ گے
میرے سائے میں تو طوفان چلے آتے ہیں
جس طرف جلوه نما ہوتا ہے وه سارے لوگ
درد و غم اب مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے
تیرے جاتے ہی یہ مہمان چلے آتے ہیں
ہنس رہا ہوں کہ مِری پیروی میں دشت کی سمت
لوگ انجام سے انجان چلے آتے ہیں
زبیر قیصر
No comments:
Post a Comment