ہمیں رسمِ سفر آئی نہ اندازِ قیام آیا
نجانے ہم کہاں ہوں گے اگر ان کا پیام آیا
دیارِ رنگ و نکہت میں گزر کیا ہوشمندوں کا
یہ پیغامِ بہار آیا تو دیوانوں کے نام آیا
سبو ہے شعلہ فشاں سایۂ دامانِ ساقی میں
وہی رنگِ تغافل ہے وہی نازِ تغافل ہے
نہ جذبِ شوق کام آیا، نہ ترکِ شوق کام آیا
محبت کو سنبھالا بارہا تیرے تصور نے
رہِ ترک و طلب میں جب کوئی مشکل مقام آیا
دلِ خلوت نشیں الجھا رہا اپنے حجابوں میں
ہزاروں بار چھپ چھپ کو کوئی بالائے بام آیا
روشؔ سے اس بتِ خودبیں کو مصروفِ سخن پایا
برہمن شکوہ بر لب بر درِ بیت الحرام آیا
روش صدیقی
No comments:
Post a Comment