Friday, 11 March 2016

تغافل خود ہے اقرار محبت

تغافل خود ہے اقرارِ محبت
یہ خاموشی ہے گفتارِ محبت
نہاں ہو یا نمایاں ہے بہرطور
محبت ہے سزاوارِ محبت
دلِ مہتاب ہو یا چشمِ انجم
نہیں ہے کون بیمارِ محبت
وہ لغزیدہ نگاہیں کہہ رہی ہیں
دلِ نازک پہ ہے بارِ محبت
ز سر تا پا محبت بن گئے ہو
یہی ہوتا ہے انکارِ محبت
تمنائیں ہوئی جاتی ہیں روپوش
کھلے جاتے ہیں اسرارِ محبت
شبستانِ ارم سے کھینچ لائی
نسیمِ صبحِ گلزارِ محبت
یہ کیا جانیں وہ رم خوردہ نگاہیں
روشؔ بھی ہے گرفتارِ محبت

روش صدیقی

No comments:

Post a Comment