دل سے رخصت ہر اک امید ہوئی
آج ہم غم زدوں کی عید ہوئی
دور سے گاہ گاہ ایک نگاہ
اس کو بھی مدتِ مدید ہوئی
میرے ہی شوق کا وہ پرتو تھا
دلِ غمدیدہ کانپ کانپ اٹھا
یاس کے بعد جب امید ہوئی
داغِ حسرت مٹے گا آپ اثرؔ
نقشِ باطل جہاں امید ہوئی
اثر لکھنوی
No comments:
Post a Comment