کہیں پہ دھوپ کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے
کہیں پہ شام سرہانے لگا کے بیٹھ گئے
جلے جو ریت میں تلوے تو ہم نے یہ دیکھا
بہت سے لوگ وہیں چھٹپٹا کے بیٹھ گئے
کھڑے ہوئے تھے الاووں کی آنچ لینے کو
دوکاندار تو میلے میں لٹ گئے یارو
تماش بین دوکانیں لگا کے بیٹھ گئے
لہو لہان نظاروں کا ذکر آیا تو
شریف لوگ اٹھے، دور جا کے بیٹھ گئے
یہ سوچ کر کہ درختوں میں چھاؤں ہوتی ہے
یہاں ببول کے سائے میں آ کے بیٹھ گئے
دشینت کمار
No comments:
Post a Comment