Saturday 10 September 2016

اس راستے کے نام لکھو ایک شام اور

اس راستے کے نام لکھو ایک شام اور
یا اس میں روشنی کا کرو انتظام اور
آندھی میں صرف ہم ہی اکھڑ کر نہیں گرے
ہم سے جڑا ہوا تھا کوئی ایک نام اور
مرگھٹ میں بھیڑ ہے یا مزاروں میں بھیڑ ہے
اب گل کھلا رہا ہے تمہارا نظام اور
گھٹنوں پہ رکھ کے ہاتھ کھڑے تھے نماز میں
آ، جا رہے تھے لوگ ذہن میں تمام اور
ہم نے بھی پہلی بار چکھی تو بری لگی
کڑوی تمہیں لگے گی، مگر ایک جام اور
حیراں تھے اپنے عکس پہ گھر کے تمام لوگ
شیشہ چٹخ گیا تو ہوا ایک کام اور
ان کا کہیں جہاں میں ٹھکانہ نہیں رہا
ہم کو تو مل گیا ہے ادب میں مقام اور

دشینت کمار

No comments:

Post a Comment