Wednesday, 7 September 2016

سخت نازک مزاج دلبر تھا

سخت نازک مزاج دلبر تھا
خیر گزری کہ دل بھی پتھر تھا
مختصر حالِ زندگی یہ ہے
لاکھ سودا تھا، اور اک سر تھا
ان کی رخصت کا دن تو یاد نہیں
یہ سمجھئے کہ روزِ محشر تھا
خاک نبھتی مِری تِرے دل میں
ایک شیشہ تھا، ایک پتھر تھا
تم مِرے گھر جو آنے والے تھے
کھولے آغوش صبح تک در تھا
ابرِ رحمت جو ہو گیا مشہور
کسی مۓ کش کا دامنِ تر تھا
آنسوؤں کی تھی کیا بساط مگر
دیکھتے دیکھتے سمندر تھا
کیسی آزاد زندگی ہے جلیلؔ
درِ دل پر جب ایک بستر تھا

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment