Saturday, 10 September 2016

زیاں کاروں کو ہوتا ہے بہت نشہ خسارے کا

زیاں کاروں کو ہوتا ہے بہت نشہ خسارے کا
سمجھتے بوجھتے کرتے ہیں وہ سودا خسارے کا
دکھوں کی رات لمبی ہو تو غم بے معنی لگتے ہیں
خسارے کی رُتوں میں غم نہیں ہوتا خسارے کا
مِرے ہاتھوں کی الجھی اور مٹ میلی لکیروں میں
یقیناً کوئی پوشیدہ نشاں ہو گا خسارے کا
اسے ناراض کر کے خود سے بھی ہم روٹھ جاتے ہیں
خسارہ در خسارہ ہو،۔ تو غم دُگنا خسارے کا
ہم ان جیسے نہیں جو سُود پر دیتے ہیں نقدِ جاں
نہ ان جیسے ہیں، ہوتا ہے جنہیں صدمہ خسارے کا
کہاں دل خرچ کرنا ہے، کہاں پر جان دینی ہے
لگا لیتے ہیں ہم پہلے ہی تخمینہ خسارے کا
نہ جس نے خواب دیکھے اور نہ کاٹیں ہجر کی راتیں
اسے ہو ہی نہیں سکتا ہے اندازہ خسارے کا
ملال اب کیوں، جو یاد آنے لگی ہے خاکِ شہرِ جاں
چُنا تھا آپ ہی تو ہم نے یہ رستہ خسارے کا
حسنؔ اس کاروبارِ دل میں ہم کیا کیا گنوا بیٹھے
کبھی تفصیل سے بتلائیں گے قصہ خسارے کا

حسن عباس رضا 

No comments:

Post a Comment