زیاں کاروں کو ہوتا ہے بہت نشہ خسارے کا
سمجھتے بوجھتے کرتے ہیں وہ سودا خسارے کا
دکھوں کی رات لمبی ہو تو غم بے معنی لگتے ہیں
خسارے کی رُتوں میں غم نہیں ہوتا خسارے کا
مِرے ہاتھوں کی الجھی اور مٹ میلی لکیروں میں
اسے ناراض کر کے خود سے بھی ہم روٹھ جاتے ہیں
خسارہ در خسارہ ہو،۔ تو غم دُگنا خسارے کا
ہم ان جیسے نہیں جو سُود پر دیتے ہیں نقدِ جاں
نہ ان جیسے ہیں، ہوتا ہے جنہیں صدمہ خسارے کا
کہاں دل خرچ کرنا ہے، کہاں پر جان دینی ہے
لگا لیتے ہیں ہم پہلے ہی تخمینہ خسارے کا
نہ جس نے خواب دیکھے اور نہ کاٹیں ہجر کی راتیں
اسے ہو ہی نہیں سکتا ہے اندازہ خسارے کا
ملال اب کیوں، جو یاد آنے لگی ہے خاکِ شہرِ جاں
چُنا تھا آپ ہی تو ہم نے یہ رستہ خسارے کا
حسنؔ اس کاروبارِ دل میں ہم کیا کیا گنوا بیٹھے
کبھی تفصیل سے بتلائیں گے قصہ خسارے کا
حسن عباس رضا
No comments:
Post a Comment