Saturday, 10 September 2016

ہمیں اک دوسرے سے غم چھپانا آ گیا ہے

ہمیں اک دوسرے سے غم چھپانا آ گیا ہے
ہمارے درمیاں شاید زمانہ آ گیا ہے
تمہاری گفتگو پھر ہو گئی ہے جارحانہ
تمہارے ہاتھ پھر کوئی بہانہ آ گیا ہے
مِری آنکھوں سے نیلم آنسوؤں کے گِر رہے ہیں
مِرے حصے میں پھر دکھ کا خزانہ آ گیا ہے
کبھی ہم نے نشانے پر نظر رکھی ہوئی تھی
اور اب خود تِیر پر اڑ کر نشانہ آ گیا ہے
رہائی کیلئے سر پھوڑتے رہتے تھے، لیکن
ہمیں اب راس تیرا آب و دانہ آ گیا ہے
یہاں پر مرکزی کردار خود سوزی کرے گا
کہ اب ایسے دوراہے پر فسانہ آ گیا ہے
فقط اک سانس کی دوری پہ ہے شہرِ تمنا
اب آنکھیں کھول دو، میں نے کہا نا، آ گیا ہے
ہمارے روگ اور اسباب بھی ہیں میرؔ جیسے
سو، ہم کو بھی حسنؔ اب رنج اٹھانا آ گیا ہے

حسن عباس رضا 

No comments:

Post a Comment