خواہشِ دلدارئ دنیا نے رسوا کر دیا
ہم بہت تنہا تھے، اس نے اور تنہا کر دیا
ضبط ایسا تھا کہ صحرا ہو گئے گم آنکھ میں
اور جب روئے تو سارا شہر دریا کر دیا
آئینے میں ڈھونڈتے ہیں اب تو اپنے خدوخال
عشق میں پہلے ہوئے تقسیم در تقسیم ہم
آخرِ کار اپنا دل بھی خود سے منہا کر دیا
سوچتے ہیں بند ہو کر اب حصارِ ذات میں
ہم کو بزم آرائی نے کتنا اکیلا کر دیا
اپنی آنکھیں بھی میں چھوڑ آیا تِری دہلیز پر
مجھ کو اس دیدار کی خواہش نے اندھا کر دیا
اسکی چاہت تو امانت تھی مِرے دل میں حسنؔ
’’کیا کِیا میں نے کہ اظہارِ تمنا کر دیا‘‘
حسن عباس رضا
No comments:
Post a Comment