Friday, 9 September 2016

وہ ہم سے خفا تھا مگر اتنا بھی نہیں تھا

وہ ہم سے خفا تھا، مگر اتنا بھی نہیں تھا
یوں مل کے بچھڑ جائیں، کچھ ایسا بھی نہیں تھا
کیا دل سے مٹے اب خلشِ ترکِ تعلق
کر گزرے وہ ہم جو کبھی سوچا بھی نہیں تھا
رستے سے پلٹ آئے ہیں ہم کس لئے آخر
اس سے نہ ملیں گے یہ ارادہ بھی نہیں تھا
کچھ ہم بھی اب اس درد سے مانوس بہت ہیں
کچھ، دردِ جدائی کا مداوا بھی نہیں تھا
سر پھوڑ کے مر جائیں، یہی راہِ مفر تھی
دیوار میں در کیا کہ دریچا بھی نہیں تھا
دل خون ہوا اور یہ آنکھیں نہ ہوئیں نم
سچ ہے، ہمیں رونے کا سلیقہ بھی نہیں تھا
اک شخص کی آنکھوں میں بسا رہتا ہے مخمورؔ
برسوں سے جسے میں نے تو دیکھا بھی نہیں تھا

مخمور سعیدی

No comments:

Post a Comment