سن سکا کوئی نہ جس کو، وہ صدا میری تھی
منفعل جس سے میں رہتا تھا، نوا میری تھی
آخرِ شب کے ٹھٹھرتے ہوئے سناٹوں سے
نغمہ بن کر جو ابھرتی تھی، دعا میری تھی
کھلکھلاتی ہوئی صبحوں کا سماں تھا ان کا
مدعا میرا، ان الفاظ کے دفتر میں نہ ڈھونڈ
وہی ایک بات جو میں کہہ نہ سکا، میری تھی
منصفِ شہر کے دربار میں کیوں چلتے ہو
صاحبو! مان گیا میں کہ خطا میری تھی
مجھ سے بچ کر وہی چپ چاپ سدھارا مخمورؔ
ہر طرف جس کے تعاقب میں صدا میری تھی
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment