حطاب کہو اب کیا بیچو گے؟
حطاب کہو اب کیا بیچو گے ؟
جنگل تو سب شہر ہوئے ہیں
گلی گلی میں پائپ بچھے ہیں
دیواروں اور سڑکوں کی گُنجلتا میں
حسنِ سلوک اور حسنِ طلب
بیچنے اور خریدنے والے
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں
نام و نمود کی، اصراف کی گہما گہمی میں
نامحدود ستائش کی خوش فہمی میں
حسنِ گلو سوز بھی
غازے کا، حسن افروزی کا محتاج ہوا ہے
کل جو نہیں تھا آج ہوا ہے
حطاب کہو
بے کاری کے دن کیسے کاٹو گے؟
کِن پیڑوں پر وار کرو گے؟
تھک ہار کے کیا اپنے ہی ساۓ میں بیٹھو گے؟
شاخیں کاٹ کے جو ڈھیر لگایا تھا
اس پیشے میں جو دام اور نام کمایا تھا
کب تک اس پر گزران کرو گے؟
کب اور کہاں اپنے حصے کے اشجار لگاؤ گے
دیکھو بھیا
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے یوں بیٹھے رہے تو
بھوکے مر جاؤ گے
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment