پانی کا اضطراب، مِرے جسم و جاں میں اور
پھر سے وہی سراب، مِرے جسم و جاں میں اور
میرے ہی روبرو،۔ مِرا باطن،۔ سیاہ رات
اپنی ہی آب و تاب، مِرے جسم و جاں میں اور
بھولے نہیں عدن کے وہ دیوار و در ابھی
رہتا ہے ایک خواب، مِرے جسم و جاں میں اور
اب کے ہوا بھی تیز ہے، میں بھی ورق ورق
کھُلتا ہے کوئی باب، مِرے جسم و جاں میں اور
ڈوبے گا پھر کہاں کہ شبِ کرب، ایک بار
اترے گا آفتاب، مِرے جسم و جاں میں اور
اب کے نفس کی بارہ دری پر محیط ہے
اک گرد کہ حباب مِرے جسم و جاں میں اور
سارے پرانے نشے ہوا ہو گئے، کہ اب
تازہ ہے زہرِ آب، مِرے جسم و جاں میں اور
بولو کہ سب صدائیں مِری گُنگ ہو چلیں
لکھو نیا عذاب مِرے جسم و جاں میں اور
خالدؔ خود اپنی ذات سے خدشات ہیں بہت
خود سے ہی اجتناب، مِرے جسم و جاں میں اور
خالد کرار
پھر سے وہی سراب، مِرے جسم و جاں میں اور
میرے ہی روبرو،۔ مِرا باطن،۔ سیاہ رات
اپنی ہی آب و تاب، مِرے جسم و جاں میں اور
بھولے نہیں عدن کے وہ دیوار و در ابھی
رہتا ہے ایک خواب، مِرے جسم و جاں میں اور
اب کے ہوا بھی تیز ہے، میں بھی ورق ورق
کھُلتا ہے کوئی باب، مِرے جسم و جاں میں اور
ڈوبے گا پھر کہاں کہ شبِ کرب، ایک بار
اترے گا آفتاب، مِرے جسم و جاں میں اور
اب کے نفس کی بارہ دری پر محیط ہے
اک گرد کہ حباب مِرے جسم و جاں میں اور
سارے پرانے نشے ہوا ہو گئے، کہ اب
تازہ ہے زہرِ آب، مِرے جسم و جاں میں اور
بولو کہ سب صدائیں مِری گُنگ ہو چلیں
لکھو نیا عذاب مِرے جسم و جاں میں اور
خالدؔ خود اپنی ذات سے خدشات ہیں بہت
خود سے ہی اجتناب، مِرے جسم و جاں میں اور
خالد کرار
No comments:
Post a Comment