Friday, 9 September 2016

امکان سے باہر کبھی آثار سے آگے

امکان سے باہر، کبھی آثار سے آگے
محشر ہے مِرے دیدۂ خونبار سے آگے
عرفان کی حد یا مِرے پیکر کی شرارت
نکلا مِرا سایہ، مِری دستار سے آگے
اِک جنس زدہ نسل ہے تہذیب کے پیچھے
بازار ہے اک، کوچہ و بازار سے آگے
سورج ہے شب و روز تعاقب میں وگرنہ
ہے اور بہت رات کے اسرار سےآگے
ہم لوگ کہ منزل کے بھلاوے کے گرفتار
آثار سے پیچھے،۔ کبھی آثار سے آگے

خالد کرار

No comments:

Post a Comment