Friday, 9 September 2016

جس کی نہ کوئی رات ہو ایسی سحر ملے

جس کی نہ کوئی رات ہو ایسی سحر ملے
سارے تعینات سے اک دن سفر ملے
افواہ کس نے ایسی اڑائی کہ شہر میں
ہر شخص بچ رہا ہے نہ اس سے نظر ملے
دشواریاں کچھ اور زیادہ ہی بڑھ گئیں
گھر سے چلے تو راہ میں اتنے شجر ملے
طے کرنا رہ گئی ہیں ابھی کتنی منزلیں
جو آگے جا چکے ہیں کچھ انکی خبر ملے
ممکن ہے آڑے آئیں زمانہ شناسیاں
تم بھی ہماری راہ میں حائل اگر ملے
قضیہ ہو موسموں کا نہ دن کا نہ رات کا
اب کے اگر ملے بھی تو ایسا سفر ملے
لوگوں کو کیا پڑی تھی اٹھاتے اذیتیں
صحرا کی خاک چھانتے آشفتہ سر ملے

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment