Friday, 9 September 2016

تمہارے شہر کے رستے عجیب رستے ہیں

تمہارے شہر کے رستے عجیب رستے ہیں
کہ واپسی کے لیے آج تک ترستے ہیں
جو قہقہوں کی عمارت میں ہو گئے محصور
کچھ ایسے لوگوں کی بستی میں ہم بھی بستے ہیں
ہزار شکر، پناہوں سے دور ہیں ہم لوگ
بدن ہمارے ابھی دھوپ میں جھلستے ہیں
وجود اپنا مکمل نہیں ہے جن کے بغیر
وہی رفیق ہمیں ناگ بن کے ڈستے ہیں
ابھی کی بات ہے اک خوف دل میں رہتا تھا
اور آج ہجر کے ساون بھی کم برستے ہیں
بنے ہوئے تھے کبھی بوجھ جن کے ذہنوں پر
ہمارے قرب کو وہ آج کیوں ترستے ہیں
نوازے جاتے ہیں آشفتگی کی دولت سے
جنوں نواز زمانے میں کتنے سستے ہیں

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment