تمہارے شہر کے رستے عجیب رستے ہیں
کہ واپسی کے لیے آج تک ترستے ہیں
جو قہقہوں کی عمارت میں ہو گئے محصور
کچھ ایسے لوگوں کی بستی میں ہم بھی بستے ہیں
ہزار شکر، پناہوں سے دور ہیں ہم لوگ
وجود اپنا مکمل نہیں ہے جن کے بغیر
وہی رفیق ہمیں ناگ بن کے ڈستے ہیں
ابھی کی بات ہے اک خوف دل میں رہتا تھا
اور آج ہجر کے ساون بھی کم برستے ہیں
بنے ہوئے تھے کبھی بوجھ جن کے ذہنوں پر
ہمارے قرب کو وہ آج کیوں ترستے ہیں
نوازے جاتے ہیں آشفتگی کی دولت سے
جنوں نواز زمانے میں کتنے سستے ہیں
آشفتہ چنگیزی
No comments:
Post a Comment