Friday, 9 September 2016

ہر ایک بات پہ وہ قہقہے لگاتا ہے

ہر ایک بات پہ وہ قہقہے لگاتا ہے
یہ اور بات کہ ہنسنے سے جی چراتا ہے
ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا
لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے
تمام راستے اب ایک جیسے لگتے ہیں
گمان راہ میں شکلیں بدل کے آتا ہے
جو ایک بار ہواؤں سے جوڑ لے رشتہ
کہاں وہ لوٹ کے شہروں کی سمت آتا ہے
سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر
وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے
جو مشکلوں کے کئی حل تلاش لایا تھا
کھلونے بانٹ کے بچوں میں مسکراتا ہے
ہزار موجیں ہیں خاموشیوں کے سینے میں
کمی وہ کیا ہے سمندر جو خود میں پاتا ہے
شکار دھند کا صحرا نورد کرتے ہیں
فریب کھانا کہاں دوسروں کو آتا ہے

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment