ہر ایک بات پہ وہ قہقہے لگاتا ہے
یہ اور بات کہ ہنسنے سے جی چراتا ہے
ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا
لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے
تمام راستے اب ایک جیسے لگتے ہیں
جو ایک بار ہواؤں سے جوڑ لے رشتہ
کہاں وہ لوٹ کے شہروں کی سمت آتا ہے
سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر
وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے
جو مشکلوں کے کئی حل تلاش لایا تھا
کھلونے بانٹ کے بچوں میں مسکراتا ہے
ہزار موجیں ہیں خاموشیوں کے سینے میں
کمی وہ کیا ہے سمندر جو خود میں پاتا ہے
شکار دھند کا صحرا نورد کرتے ہیں
فریب کھانا کہاں دوسروں کو آتا ہے
آشفتہ چنگیزی
No comments:
Post a Comment