تسلی حرف کی بازی گری ہے
جو دل کا حال پہلے تھا وہی ہے
اگرچہ سارے جگنو مر چکے ہیں
مگر پتوں پہ کیسی روشنی ہے
ہمیں ارزاں سمجھ بیٹھی ہے تُو بھی
تِری چاہت بڑی مہنگی پڑی ہے
شب تنہائی کے فرماں رواؤ
خموشی بات کرنا چاہتی ہے
کہاں ہیں وہ ابابیلوں کے لشکر
عدو کی فوج سر پر آ چکی ہے
ہر اک تصویر رنگوں سے ہے خالی
مگر دیوار پر تِتلی سجی ہے
کھِچی جاتی ہیں آنکھوں پر لکیریں
کوئی شے دل کے اندر توٹتی ہے
واجد امیر
جو دل کا حال پہلے تھا وہی ہے
اگرچہ سارے جگنو مر چکے ہیں
مگر پتوں پہ کیسی روشنی ہے
ہمیں ارزاں سمجھ بیٹھی ہے تُو بھی
تِری چاہت بڑی مہنگی پڑی ہے
شب تنہائی کے فرماں رواؤ
خموشی بات کرنا چاہتی ہے
کہاں ہیں وہ ابابیلوں کے لشکر
عدو کی فوج سر پر آ چکی ہے
ہر اک تصویر رنگوں سے ہے خالی
مگر دیوار پر تِتلی سجی ہے
کھِچی جاتی ہیں آنکھوں پر لکیریں
کوئی شے دل کے اندر توٹتی ہے
واجد امیر
No comments:
Post a Comment