Thursday, 8 September 2016

تسلی حرف کی بازی گری ہے

تسلی حرف کی بازی گری ہے
جو دل کا حال پہلے تھا وہی ہے
اگرچہ سارے جگنو مر چکے ہیں
مگر پتوں پہ کیسی روشنی ہے
ہمیں ارزاں سمجھ بیٹھی ہے تُو بھی
تِری چاہت بڑی مہنگی پڑی ہے
شب تنہائی کے فرماں رواؤ
خموشی بات کرنا چاہتی ہے
کہاں ہیں وہ ابابیلوں کے لشکر
عدو کی فوج سر پر آ چکی ہے
ہر اک تصویر رنگوں سے ہے خالی
مگر دیوار پر تِتلی سجی ہے
کھِچی جاتی ہیں آنکھوں پر لکیریں
کوئی شے دل کے اندر توٹتی ہے

واجد امیر

No comments:

Post a Comment