جلتا کب تک وہ اک دِیا آخر
تیز تھی وقت کی ہَوا آخر
رہتی مربوط ساز سے کب تک
منتشر ہو گئی نوا آخر
دور تک پھر نہیں کوئی آواز
مِٹتا کیسے کہ حرفِ سنگ تھا وہ
نقش دل پر بنا رہا آخر
دیکھ کر آئینہ وہ حیراں تھا
آئینہ خود ہی بول اٹھا آخر
لُوٹنے والا لُٹ گیا خود بھی
اس کے دامن میں کیا رہا آخر
دشمنوں دشمنوں میں میل ہوا
زہر میں زہر مل گیا آخر
ہم بھی بے آسرا نہیں محسنؔ
اپنا بھی ہے کوئی خدا آخر
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment