Friday, 14 October 2016

نقش بر آب تھا مجھ کو تھی بقا یوں ہی کب

نقش بر آب تھا مجھ کو تھی بقا یوں ہی کب
میں نے مانگی کوئی جینے کی دعا یوں ہی کب
رنگ لائی ہے کچھ اب میرے لہو کی سرخی
اس کے ہاتھوں پہ کھِلا رنگِ حنا یوں ہی کب
اب سرِ راہ کوئی شمع جلے گی کیوں کر
سست رفتار تھی دنیا کی ہوا یوں ہی کب
عارضی ہوتا، جو ہوتا بھی تعلق اس سے
لاتی خاطر میں اسے میری انا یوں ہی کب
اب کسی بھاگتے منظر کی طرف دوڑوں کیا
راس آئی مجھے باہر کی فضا یوں ہی کب
ہو گا گستاخ ہوا کا کوئی جھونکا محسنؔ
خود سے کھُلتا ہے کوئی بندِ قبا یوں ہی کب

محسن زیدی

No comments:

Post a Comment