نقش بر آب تھا مجھ کو تھی بقا یوں ہی کب
میں نے مانگی کوئی جینے کی دعا یوں ہی کب
رنگ لائی ہے کچھ اب میرے لہو کی سرخی
اس کے ہاتھوں پہ کھِلا رنگِ حنا یوں ہی کب
اب سرِ راہ کوئی شمع جلے گی کیوں کر
عارضی ہوتا، جو ہوتا بھی تعلق اس سے
لاتی خاطر میں اسے میری انا یوں ہی کب
اب کسی بھاگتے منظر کی طرف دوڑوں کیا
راس آئی مجھے باہر کی فضا یوں ہی کب
ہو گا گستاخ ہوا کا کوئی جھونکا محسنؔ
خود سے کھُلتا ہے کوئی بندِ قبا یوں ہی کب
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment