دل کو دھڑکا ہے کہ اس کا بھی پتا کوئی نہیں
اب کے پسپائی میں سنتے ہیں بچا کوئی نہیں
رُو بہ رُو الفاظ کے رکھے ہیں عریاں آئینے
جسم پر آواز کے بندِ قبا کوئی نہیں
اسکے زخمی دست و پا پر رکھتا مرہم رک کے کون
خواب میں لگتا تھا جیسے کوئی میرے پاس ہو
جاگتی آنکھوں نے ڈھونڈا تو مِلا کوئی نہیں
کون منزل کی بشارت دے گا اب اسکی طرح
رہنما تو ہیں کئی،۔۔۔ معجز نما کوئی نہیں
ڈھیر ہیں اب ٹوٹ کر اک دوسرے کے سامنے
میرے اس کے درمیاں اب فاصلا کوئی نہیں
دور تک پھیلی ہوئی ہے محسنؔ اک بے منظری
چہرہ اب پیشِ نظر اچھا بُرا کوئی نہیں
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment