Saturday 15 October 2016

اس گرمی بازار سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی

اس گرمئ بازار سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
سچ جانیئے دکان کے اندر نہیں کچھ بھی
ہم جہدِ مسلسل سے جہاں ٹوٹ کے گر جائیں
وہ لمحہ حقیقت ہے مقدر نہیں کچھ بھی 
مجبور تجسس نے کِیا ہے ہمیں، ورنہ
اس قید کی دیوار کے باہر نہیں کچھ بھی
یہ میری تمنا ہے کہ جنبش میں ہیں پردے
اک خواہشِ پیہم ہے پسِ در نہیں کچھ بھی
افکار کی اقلیم وراثت ہے ہماری
اور اس کے سوا ہم کو میسر نہیں کچھ بھی
جس تختِ غناء پر متمکن ہوں میں پرتوؔ
اس دولتِ بے حد کے برابر نہیں کچھ بھی

پرتو روہیلہ

No comments:

Post a Comment