اس گرمئ بازار سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
سچ جانیئے دکان کے اندر نہیں کچھ بھی
ہم جہدِ مسلسل سے جہاں ٹوٹ کے گر جائیں
وہ لمحہ حقیقت ہے مقدر نہیں کچھ بھی
مجبور تجسس نے کِیا ہے ہمیں، ورنہ
یہ میری تمنا ہے کہ جنبش میں ہیں پردے
اک خواہشِ پیہم ہے پسِ در نہیں کچھ بھی
افکار کی اقلیم وراثت ہے ہماری
اور اس کے سوا ہم کو میسر نہیں کچھ بھی
جس تختِ غناء پر متمکن ہوں میں پرتوؔ
اس دولتِ بے حد کے برابر نہیں کچھ بھی
پرتو روہیلہ
No comments:
Post a Comment