میں جو صحرا میں کسی پیڑ کا سایا ہوتا
دل زدہ کوئی گھڑی بھر کو تو ٹھہرا ہوتا
اب تو وہ شاخ بھی شاید ہی گلستاں میں ملے
کاش، اس پھول کو اس وقت ہی توڑا ہوتا
وقت فرصت نہیں دے گا ہمیں مڑنے کی کبھی
ہنستے ہنستے جو ہمیں چھوڑ گیا ہے حیراں
اب رلانے کے لیے یاد نہ آیا ہوتا
وقتِ رخصت بھی نرالی ہی رہی دھج تیری
جاتے جاتے ذرا مڑ کے بھی تو دیکھا ہوتا
کس سے پوچھیں کہ وہاں کیسی گزر ہوتی ہے
دوست! اپنا کبھی احوال ہی لکھا ہوتا
ایسا لگتا ہے کہ بس خواب سے جاگا ہوں ابھی
سوچتا ہوں کہ جو یہ خواب نہ ٹوٹا ہوتا
زندگی پھر بھی تھی دشوار بہت ہی دشوار
ہر قدم ساتھ اگر ایک مسیحا ہوتا
ایک محفل ہے کہ دن رات بپا رہتی ہے
چند لمحوں کے لیے کاش میں تنہا ہوتا
پرتو روہیلہ
No comments:
Post a Comment