پھونک ڈالے تپشِ غم تو برا بھی کیا ہے
چند یادوں کے سوا دِل میں رہا بھی کیا ہے
بے نوا ہو گا نہ اس شہر میں ہم سا کوئی
زندگی! تجھ سے مگر ہم کو گِلہ بھی کیا ہے
کہیں اک آہ میں افسانے بیاں ہوتے ہیں؟
کیا کرے، تھک کے اگر بیٹھ نہ جائے دلِ زار
اک خریدار نہیں جنسِ وفا بھی کیا ہے
تم ہوغمخوار، تمہیں اتنا تکلف کیوں ہے
زہر دے دو مجھے، اب میری دوا بھی کیا ہے
زندگی! چھین لے بخشی ہوئی دولت اپنی
تُو نے خوابوں کے سوا مجھ کو دِیا بھی کیا ہے
دیدۂ حُسن بھی، بے خواب ہوئے جاتے ہیں
نالۂ اخترِ شورِیدہ نوا بھی کیا ہے
سعید احمد اختر
No comments:
Post a Comment