Saturday 15 October 2016

پھونک ڈالے تپش غم تو برا بھی کیا ہے

پھونک ڈالے تپشِ غم تو برا بھی کیا ہے
چند یادوں کے سوا دِل میں رہا بھی کیا ہے
بے نوا ہو گا نہ اس شہر میں ہم سا کوئی
زندگی! تجھ سے مگر ہم کو گِلہ بھی کیا ہے
کہیں اک آہ میں افسانے بیاں ہوتے ہیں؟
ہم نے اس دشمنِ ارماں سے کہا بھی کیا ہے
کیا کرے، تھک کے اگر بیٹھ نہ جائے دلِ زار
اک خریدار نہیں جنسِ وفا بھی کیا ہے
تم ہوغمخوار، تمہیں اتنا تکلف کیوں ہے
زہر دے دو مجھے، اب میری دوا بھی کیا ہے
زندگی! چھین لے بخشی ہوئی دولت اپنی
تُو نے خوابوں کے سوا مجھ کو دِیا بھی کیا ہے
دیدۂ حُسن بھی، بے خواب ہوئے جاتے ہیں
نالۂ اخترِ شورِیدہ نوا بھی کیا ہے

سعید احمد اختر

No comments:

Post a Comment