مٹنے والا تھا جو اک نقش ابھارا میں نے
اپنے ہونٹوں سے لگا زنگ اتارا میں نے
آئینہ، عمر کی تفصیل بتا دیتا ہے
اک نظر دیکھ لیا خود کو دوبارا میں نے
ویسی ہی شکل کا اک شخص مِرے سامنے تھا
رقص فرماتی ہوئی، گاتی ہوئی ٹہنی سے
اک مجاور کی طرح پھول اتارا میں نے
جو دریچے میں دِیے رکھ کے چلا جاتا تھا
اس کو بھیجا تھا سرِ شام ستارا میں نے
اٹھ کے درویش مِرے پاس چلا آیا تھا
رکھ دیا کاسۂ خالی میں اشارا میں نے
رنگ دریا کا مِرے سامنے تبدیل ہوا
تیغِ خوشرنگ کو پانی سے گزارا میں نے
فیصل ہاشمی
No comments:
Post a Comment