Sunday, 16 October 2016

مٹنے والا تھا جو اک نقش ابھارا میں نے

مٹنے والا تھا جو اک نقش ابھارا میں نے
اپنے ہونٹوں سے لگا زنگ اتارا میں نے
آئینہ، عمر کی تفصیل بتا دیتا ہے
اک نظر دیکھ لیا خود کو دوبارا میں نے
ویسی ہی شکل کا اک شخص مِرے سامنے تھا
ٹوٹتی نیند میں جو نام پکارا میں نے
رقص فرماتی ہوئی، گاتی ہوئی ٹہنی سے
اک مجاور کی طرح پھول اتارا میں نے
جو دریچے میں دِیے رکھ کے چلا جاتا تھا 
اس کو بھیجا تھا سرِ شام ستارا میں نے
اٹھ کے درویش مِرے پاس چلا آیا تھا
رکھ دیا کاسۂ خالی میں اشارا میں نے
رنگ دریا کا مِرے سامنے تبدیل ہوا
تیغِ خوشرنگ کو پانی سے گزارا میں نے

فیصل ہاشمی

No comments:

Post a Comment