سکوتِ نیم شبی میں صدا لگاتا ہوا
میں ایک حرف ہوں کوہِ ندا سے آتا ہوا
پھر ایک ہاتھ اسی خاک سے نمایاں ہوا
گزشت و رفت کے ہر نقش کو مٹاتا ہوا
کوئی تو ہے جو پسِ طاق رکھتا جاتا ہے
سبھی ظروف کفِ کوزہ گر میں ٹوٹ گئے
وہ بے خیال رہا،۔۔ چاک کو گھماتا ہوا
قدیم دشت میں ایک شام سی اترتی ہوئی
کفِ بلند میں ایک چاند جگمگاتا ہوا
کتابِ نور سے ایک روشنی سی آتی ہوئی
اور ایک چراغ اسی نور میں نہاتا ہوا
فیصل ہاشمی
No comments:
Post a Comment