Sunday, 16 October 2016

سکوت نیم شبی میں صدا لگاتا ہوا

سکوتِ نیم شبی میں صدا لگاتا ہوا
میں ایک حرف ہوں کوہِ ندا سے آتا ہوا
پھر ایک ہاتھ اسی خاک سے نمایاں ہوا
گزشت و رفت کے ہر نقش کو مٹاتا ہوا
کوئی تو ہے جو پسِ طاق رکھتا جاتا ہے
یہ سارے پھول تیرے ہونٹ سے لگاتا ہوا
سبھی ظروف کفِ کوزہ گر میں ٹوٹ گئے
وہ بے خیال رہا،۔۔ چاک کو گھماتا ہوا
قدیم دشت میں ایک شام سی اترتی ہوئی
کفِ بلند میں ایک چاند جگمگاتا ہوا
کتابِ نور سے ایک روشنی سی آتی ہوئی
اور ایک چراغ اسی نور میں نہاتا ہوا

فیصل ہاشمی

No comments:

Post a Comment