Tuesday, 18 October 2016

اپنے بیماروں کو درد لادوا دینے لگے

اپنے بیماروں کو دردِ لا دوا دینے لگے
آہ، کیا دینا تھا تم کو اور کیا دینے لگے
دیکھنا شوخی کہ محوِ درس خاموشی ہوا
جب مجھے طعنے ستمگر کے مزا دینے لگے
غم نہیں، پیشانیاں خالی ہوں مثلِ ماہِ نو
دھن یہی ہے سنگِ در تیرا ضیا دینے لگے
سوزِ دل ضبطِ نفس سے دب نہیں سکتا کبھی
آگ کا یہ قاعدہ ہے، خود ہوا دینے لگے
میرا ذمہ حشر تک اچھے نا ہونگے وہ مریض
آپ اپنے ہاتھ سے جن کو دوا دینے لگے
یوں تڑپ اے قلبِ مضطر، یوں نکل اے جانِ زار
خنجرِ قاتل، صدائے مرحبا دینے لگے
کون آیا فاتحہ پڑھنے اثرؔ کی قبر پر
پھول مرجھائے ہوئے بوئے وفا دینے لگے

اثر لکھنوی

No comments:

Post a Comment