بانسری
رات کے پُرکیف سناٹے میں، بنسی کی صدا
چاندنی کے سیمگوں شانے پہ، لہراتی ہوئی
گونجتی بڑھتی لرزتی، کوہساروں کے قریب
پھیلتی میدان میں، پگڈنڈی پہ بل کھاتی ہوئی
آ رہی ہے اس طرح جیسے، کسی کی یاد آئے
نیند میں ڈوبی ہوئی، پلکوں کو اکساتی ہوئی
بزمِ انجم کی ہر اک تنویر، دھندلی ہو گئی
رکھ دیا ناہید جھنجھلا کے ہاتھوں سے ستار
ذرّہ ذرّہ جھوم کر لینے لگا انگڑائیاں
کہکشاں تکنے لگی حیرت سے سُوئے جوئبار
یوں فضاؤں میں رواں ہے یہ صدائے دل نشیں
ذہنِ شاعر میں ہو جیسے اک اچھُوتا سا خیال
یا سحر کے سِیمگوں رخسار پر پہلی کِرن
سرخ ہونٹوں سے بچھائے، جس طرح بوسوں کے جال
گاہ تھمتی، گاہ سناٹے کا سینہ چیرتی
یوں فضا میں اٹھ، ہو جاتی ہے مدھم ہائے ہائے
شام کی دھندلاہٹوں میں، دور کوئی کارواں
کوہساروں سے اتر کر، جیسے میدانوں میں آئے
چاندنی کے سیمگوں شانے پہ، لہراتی ہوئی
گونجتی بڑھتی لرزتی، کوہساروں کے قریب
پھیلتی میدان میں، پگڈنڈی پہ بل کھاتی ہوئی
آ رہی ہے اس طرح جیسے، کسی کی یاد آئے
نیند میں ڈوبی ہوئی، پلکوں کو اکساتی ہوئی
آسمانوں میں زمیں کا گیت لہرانے لگا
چھا گیا ہے چاند کے چہرے پہ خِفت کا غباربزمِ انجم کی ہر اک تنویر، دھندلی ہو گئی
رکھ دیا ناہید جھنجھلا کے ہاتھوں سے ستار
ذرّہ ذرّہ جھوم کر لینے لگا انگڑائیاں
کہکشاں تکنے لگی حیرت سے سُوئے جوئبار
یوں فضاؤں میں رواں ہے یہ صدائے دل نشیں
ذہنِ شاعر میں ہو جیسے اک اچھُوتا سا خیال
یا سحر کے سِیمگوں رخسار پر پہلی کِرن
سرخ ہونٹوں سے بچھائے، جس طرح بوسوں کے جال
گاہ تھمتی، گاہ سناٹے کا سینہ چیرتی
یوں فضا میں اٹھ، ہو جاتی ہے مدھم ہائے ہائے
شام کی دھندلاہٹوں میں، دور کوئی کارواں
کوہساروں سے اتر کر، جیسے میدانوں میں آئے
اسرار ناروی
ابن صفی
No comments:
Post a Comment