ہجر و وصال کی گرمی سہتا ہے
دل درویش ہے پھر بھی راضی رہتا ہے
ہر آنسو میں آتش کی آمیزش ہے
دل میں شاید آگ کا دریا بہتا ہے
مجھ سے بچھڑ کے پہروں رویا کرتا تھا
دل کو شاید فصلِ بہاراں راس نہیں
باغ میں رہ کر پھول کے دکھ سہتا ہے
میں نے اس کو اپنا مسیحا مان لیا
سارا زمانہ جس کو قاتل کہتا ہے
تارا تارا ہجر کے قصے پھیلے ہیں
آنسو آنسو دل کا ساگر بہتا ہے
ان ہونٹوں سے یوں رستی ہے بات ظہیرؔ
جیسے اک نغموں کا جھرنا بہتا ہے
ظہیر کاشمیری
No comments:
Post a Comment