طلب آسودگی کی عرصۂ دنیا میں رکھتے ہیں
امیدِ فصلِ گل ہے اور قدم صحرا میں رکھتے ہیں
ہوئے ہیں اس قدر مانوس ہم پیمانِ فردا سے
کہ اب دِل کا سفینہ ہجر کے دریا میں رکھتے ہیں
بشر کو دیکھئے با ایں ہمہ ساحل پہ مرتا ہے
ہمارے پاس کوئی گردشِ دوراں نہیں آتی
ہم اپنی عمرِ فانی ساغر و مِینا میں رکھتے ہیں
ہمیں ہر گام پر ملتا رہا، اعزازِ محرومی
وقار اپنا بہت ہم، دیدۂ دنیا میں رکھتے ہیں
امیدوں کے کھنڈر مایوسیوں کے دم بخود سائے
بڑی ہی رونقیں ہم، اس دلِ تنہا میں رکھتے ہیں
ہمارے دور کے انسان، خود اپنی ہی ضد نکلے
طلب ماضی کی ہوتی ہے، قدم فردا میں رکھتے ہیں
ظہیرؔ ان دل زدوں کی عظمتیں دیکھو، یہ دیوانے
چراغِ عشق روشن، وادی و صحرا میں رکھتے ہیں
ظہیر کاشمیری
No comments:
Post a Comment