Monday, 17 October 2016

تم نے خبر نہ لی مرے حال خراب کی

تم نے خبر نہ لی مِرے حالِ خراب کی
کالی ہوئیں فراق میں راتیں شباب کی
تھی الوداعِ ہوشِ تجلئ مختصر
میرا تو کام کر گئی جُنبش نقاب کی
وہ میرے ساتھ ساتھ مجسم تِرا خیال
وہ جنگلوں میں سیر شبِ ماہتاب کی
ممنون ہوں تِری نگہِ بے نیاز کا
رسوائیاں تو ہیں مِرے حالِ خراب کی
میں اپنی جلوہ گاہِ تصور سجاؤں گا
تصویر کھینچ دے کوئ ان کے شباب کی
دے دو غبارِ دل میں ذرا سی جگہ ہمیں
تربت بنائیں گے دلِ خانہ خراب کی
گھبرا کے جس سے چیخ اٹھا عالمِ وجود
وہ چیز دل نے میرے لیے انتخاب کی
چمکیں تو خوفناک، گِریں تو حیات سوز
ساون کی بجلیاں ہیں نگاہیں عتاب کی
سیمابؔ زندگی کی ہے تاریخ ہر غزل
ہر شعر میں ہے ایک کہانی شباب کی

سیماب اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment