نہ اب ہم سا کوئی پیاسا ملے گا
نہ اب ایسا کوئی دریا ملے گا
مِرے پیروں تلے دنیا ملے گی
رِدائے فقر میں مولا ملے گا
یہاں سورج ملے گا سر جھکائے
پسِ الفاظ آئینے ملیں گے
پسِ آئینہ اک چہرا ملے گا
مِرے ہاتھوں کو بوسہ دینے والے
تجھے حرفِ دمِ عیسیٰ ملے گا
مِری دہلیز پر ہم زاد میرا
دریچوں میں مِرا چہرا ملے گا
یہاں کچھ پیڑ ایسے بھی ملیں گے
جہاں آسیب کا سایہ ملے گا
کہیں دیوار کے رشتے ملیں گے
کہیں دیوار کا جھگڑا ملے گا
اٹھو اب رات کا پچھلا پہر ہے
چلو ایسے میں وہ تنہا ملے گا
رساؔ اس عشق کے جمہوریے میں
ہر اک درویش، شہزادہ ملے گا
رسا چغتائی
No comments:
Post a Comment