تِرے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
خدا جانے مِری گٹھڑی میں کیا ہے
یہ کوئی اور ہے اے عکسِ دریا
میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں
نہ آدم ہے،۔ نہ آدم زاد کوئی
کن آوازوں سے سر ٹکرا رہا ہوں
مجھے اس بھیڑ میں لگتا ہے ایسے
کہ میں خود سے بچھڑ کر رہ گیا ہوں
جسے سمجھا نہیں شاید کسی نے
میں اپنے عہد کا وہ سانحہ ہوں
جہاں موجِ حوادث چاہے لے جائے
خدا ہوں میں نہ کوئی ناخدا ہوں
جنو ں کیسا کہاں کا عشق صاحب
میں اپنے آپ میں ہی مبتلا ہوں
نہیں کچھ دوش اس میں آسماں کا
میں خود ہی اپنی نظروں سے گرا ہوں
طرارے بھر رہا ہے وقت یا رب
کہ میں چلتے چلتے رک گیا ہوں
وہ پہروں آئینہ کیوں دیکھتا ہے
مگر یہ بات میں کیوں سوچتا ہوں
اگر یہ محفل بنتِ عنب ہے
تو میں ایسا کہاں کا پارسا ہوں
غمِ اندیشہ ہائے زندگی کیا
تپش سے آگہی کی جل رہا ہوں
ابھی یہ بھی کہاں جانا کہ مرزا
میں کیا ہوں، کون ہوں، کیا کر رہا ہوں
رسا چغتائی
No comments:
Post a Comment