عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
دنیا، غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
چہرے کو بے چہرہ کر کے، بدلے میں
چلیے، کچھ مشہوری تو ہو جاتی ہے
سچ کہتے ہو، روز کی دنیاداری میں
جزیہ ہے جو روز کے زندہ رہنے کا
ہم سے وہ مزدوری تو ہو جاتی ہے
سچ وہ مرشد، جس کی ایک سفارش سے
عرضی کی منظوری تو ہو جاتی ہے
اہلِ جنوں آسودہ ہوں جس مٹی میں
وہ مٹی کستوری تو ہو جاتی ہے
الف انا کے پوری قد میں چلتا ہوں
شرطِ فقیری پوری تو ہو جاتی ہے
آفتاب اقبال شمیم
No comments:
Post a Comment