Sunday, 26 July 2020

شبنم نہِیں کہتا اسے شعلہ نہِیں کہتا

 شبنم نہِیں کہتا، اسے شعلہ نہِیں کہتا

وہ کوئی بھی ہو میں اسے تجھ سا نہِیں کہتا

اس ڈر سے کہ تُو مجھ کو شفایاب نہ کر دے

قاتل تجھے کہتا ہوں، مسیحا نہِیں کہتا

دریا تو ہے وہ جس سے کنارے چھلک اٹھیں

بہتے ہوئے پانی کو میں دریا نہِیں کہتا

سجتی ہے خیالوں میں سدا کوئی رفاقت

تنہا ہوں، مگر خود کو میں تنہا نہِیں کہتا

گہرائی جو دی تُو نے مِرے زخمِ جگر میں

میں اتنا سمندر کو بھی گہرا نہِیں کہتا

کِس کِس کی تمنا میں کروں پیار کو تقسیم

ہر شخص کو میں، جانِ تمنا نہِیں کہتا

کرتا ہُوں قتیل اپنے گناہوں پہ بہت ناز

انسان ہوں میں خود کو فرشتہ نہِیں کہتا


قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment