جو شخص جا چکا ہے، بھلایا نہیں گیا
دن ڈھل چکا، منڈیر سے سایا نہیں گیا
ازبر تھا سارا عشق، سبق سارا یاد تھا
اس نے کہا، "سناؤ"! سنایا "نہیں" گیا
ایسا تھا حسن اس کا جسے آج تک کبھی
وہ نیند اڑ چکی ہے جو آئی نہیں ہمیں
وہ خواب کھو گیا، جو دکھایا نہیں گیا
اک تو میں چپ رہا تِری دنیا کے خوف سے
اک تیرا ڈر بھی دل سے خدایا! نہیں گیا
مقصود وفا
No comments:
Post a Comment