Tuesday 28 July 2020

زندگی تھی ہی نہیں زخم کسی یاد کے تھے

زندگی تھی ہی نہیں، زخم کسی یاد کے تھے
ہم نے وہ دن بھی گزارے جو تِرے بعد کے تھے
ہم کبھی کر نہ سکے ورنہ سخن ایسے بھی
جو نہ تحسین کے تھے اور نہ کسی داد کے تھے
اب جو ویران ہوئے ہیں تو یقیں آتا نہیں
ہم وہی لوگ ہیں جو قریۂ آباد کے تھے
آخرِ کار کسی بات پہ دل ٹوٹ گیا
ہم بھی انسان ہی تھے کون سے فولاد کے تھے
جب بھی ناکام ہوا میں تو مِرے کام آئے
وہ زمانے جو کسی عرصۂ برباد کے تھے

مقصود وفا

No comments:

Post a Comment