ڈھولے گاتے ہوئے اونٹوں پہ سوار آتے ہیں
چاندنی رات کے "رومان" پہ چھا جاتے ہیں
ان کے ذہنوں سے چھلکتی ہوئی تعبیروں کو
چوم لینے کے لیے مصر سے خواب آتے ہیں
ان کے ہونٹوں پہ مچلتی ہے فصاحت کی پُھوار
مست شہتوتوں کی چھاؤں تلے چُوری کھا کر
چھاچھ پیتے ہیں، مزے لیتے ہیں، اِتراتے ہیں
چلبلے" کندھوں پہ "ململ" کے دوپٹے ڈالے"
حُقّے ہاتھوں میں لیے گاؤں میں لہراتے ہیں
ڈھول کی "تال" پہ سمی کے ترانے گا کر
لاڈلے ناچتے ہیں، مور سے بن جاتے ہیں
پِڑ کبڈی کو لگا دیتے ہیں سُرخاب کے پَر
جیت لیتے ہیں تو کیا ناز سے اِٹھلاتے ہیں
یہ سجل خان اندھیرے میں نکل جائیں تو
وقت کی نبضوں میں رومان مچل جاتے ہیں
ڈالتے ہیں یہ "ستاروں" پہ "کمندیں" اکثر
مہرومہ ان کے ارادوں کی قسم کھاتے ہیں
آنکھ سے آنکھ "لڑانا" انہیں "مرغوب" نہیں
یہ وہ گھبرو ہیں کہ جو موت سے لڑ جاتے ہیں
شیر افضل جعفری
No comments:
Post a Comment