Sunday, 26 July 2020

دن ہو کہ ہو وہ رات ابھی کل کی بات ہے

دن ہو کہ ہو وہ رات ابھی کل کی بات ہے
ہوتی تھی ان سے بات ابھی کل کی بات ہے
جھپکی ادھر پلک وہ ادھر ہو گئے ہوا
جو تھے ہمارے ساتھ ابھی کل کی بات ہے
تھے اقتدار میں تو زمانہ تھا اپنے گرد
لوگوں کی تھی برات ابھی کل کی بات ہے
پھر آ گئے بساط پہ مہرے پٹے ہوئے
کھائی تھی ہم سے مات ابھی کل کی بات ہے
وہ گل تھا ڈال ڈال تو گلشن میں جوں صبا
ہم بھی تھے پات پات ابھی کل کی بات ہے
جو شخص آج سنگ ملامت کا ہے ہدف
تھی محترم وہ ذات ابھی کل کی بات ہے
خسروؔ تھے اس کے حلقہ بگوشوں میں آپ بھی
ہاتھوں میں ڈالے ہاتھ ابھی کل کی بات ہے

فیروز ناطق خسرو

No comments:

Post a Comment