دن ہو کہ ہو وہ رات ابھی کل کی بات ہے
ہوتی تھی ان سے بات ابھی کل کی بات ہے
جھپکی ادھر پلک وہ ادھر ہو گئے ہوا
جو تھے ہمارے ساتھ ابھی کل کی بات ہے
تھے اقتدار میں تو زمانہ تھا اپنے گرد
پھر آ گئے بساط پہ مہرے پٹے ہوئے
کھائی تھی ہم سے مات ابھی کل کی بات ہے
وہ گل تھا ڈال ڈال تو گلشن میں جوں صبا
ہم بھی تھے پات پات ابھی کل کی بات ہے
جو شخص آج سنگ ملامت کا ہے ہدف
تھی محترم وہ ذات ابھی کل کی بات ہے
خسروؔ تھے اس کے حلقہ بگوشوں میں آپ بھی
ہاتھوں میں ڈالے ہاتھ ابھی کل کی بات ہے
فیروز ناطق خسرو
No comments:
Post a Comment