پھر سے اسی فریب میں آئے ہوئے ہیں ہم
ایمان جس پہ پہلے بھی لائے ہوئے ہیں ہم
جس کی خدا کے ساتھ بھی دو پل نہیں بنی
اس بد مزاج شخص کو بھائے ہوئے ہیں ہم
شاخیں ہیں بے ثمر تو ہے سائے میں بھی تپش
لازم نہیں کہ اس پہ دِیا بھی جلائیں گے
مدت سے جس مزار پر آئے ہوئے ہیں ہم
لگتا ہے اب کے وہ بھی محبت کریں گے خرچ
کتنے برس سے جس کو بچائے ہوئے ہیں ہم
اے دوست تیرا ساتھ بھی ایسے ہے جس طرح
اک من پسند خواب میں آئے ہوئے ہیں ہم
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment