Sunday, 26 July 2020

پھر سے اسی فریب میں آئے ہوئے ہیں ہم

پھر سے اسی فریب میں آئے ہوئے ہیں ہم
ایمان جس پہ پہلے بھی لائے ہوئے ہیں ہم
جس کی خدا کے ساتھ بھی دو پل نہیں بنی
اس بد مزاج شخص کو بھائے ہوئے ہیں ہم
شاخیں ہیں بے ثمر تو ہے سائے میں بھی تپش
احساں مگر شجر کا اٹھائے ہوئے ہیں ہم
لازم نہیں کہ اس پہ دِیا بھی جلائیں گے
مدت سے جس مزار پر آئے ہوئے ہیں ہم
لگتا ہے اب کے وہ بھی محبت کریں گے خرچ
کتنے برس سے جس کو بچائے ہوئے ہیں ہم
اے دوست تیرا ساتھ بھی ایسے ہے جس طرح
اک من پسند خواب میں آئے ہوئے ہیں ہم

فوزیہ شیخ

No comments:

Post a Comment