آنکھوں سے اتر کر مِرے دل تک کوئی آئے
اس در پہ بھی دینے کبھی دستک کوئی آئے
پہلے تو بڑے "دام" بتاتا تھا وہ "دل" کے
اب آس میں بیٹھا ہے کہ گاہک کوئی آئے
اب "ایک" سا "موسم" تو ہمیشہ نہیں رہتا
احباب کے قدموں کو ترستی ہے مِری شام
کھولے ہوئے بیٹھا ہوں میں بیٹھک، کوئی آئے
اس دل کے مکاں کا میں حسن پہلا مکیں ہوں
آتا ہے مِرے بعد تو بے شک کوئی آئے
حسن ظہیر راجا
No comments:
Post a Comment