اک دوسرے میں ڈوب کے ہم پار ہو گئے
اس بار یوں ملے ہیں کہ سرشار ہو گئے
ویسے شروع میں ہمیں دشواریاں ہوئیں
پھر اس کے بعد ہم بھی اداکار ہو گئے
اس جسم کو "توجہ" کا فقدان لے گیا
کل کا کسے پتا؟ مگر اتنا ضرور ہے
ہم لوگ ذہنی طور پہ "تیار" ہو گئے
دریا نہ "دوریوں" کا کبھی پار ہو سکا
کشتی میں پاؤں رکھتے ہی بیدار ہو گئے
مٹی کے ساتھ ذہن کو بھی کچھ نمو ملی
بارش ہوئی تو تھوڑے سے اشعار ہو گئے
حسن ظہیر راجا
No comments:
Post a Comment