نظم
مری آنکھیں
تمہاری دید کی خواہش لیے
جب بھی تمہاری جھیل آنکھوں تک پہنچتی ہیں
وہاں پہلے سے ہی اک آنکھ (یعنی تیسری)
موجود ہوتی ہے
یہ سن رکھا تھا میں نے
روزمرّہ کی مثالوں میں
کہ اندھوں میں جو کانا ہو
اسی کا راج چلتا ہے
مگر اندر ہی اندر ہر کوئی واقف ہے
(بھیتر جو کہانی ہے)
یہاں کانا تو بینا شخص پر بھی راج کرتا ہے
یہ کانا کیا کوئی دجال ہے؟
تم جس سے ڈر کر
مجھ سے پہلے اس کو
اپنا آپ اچھے سے دکھاتی ہے
تم اپنی دید کا پہلا نوالہ اس کو دیتی ہو
مجھے جُھوٹا کھلاتی ہو
”نہیں کھانا مجھے دجال کا جھوٹا”
(یہ میں اس سے نہیں
بس دل ہی دل میں خود سے کہتا ہوں)
اسے معلوم ہی کب ہے
کہ یہ جو تیسری ہے
اس کے ریٹینا کا پچھلا در جہاں کھلتا ہے
وہ دیوار دنیا کو نکلتی ہے
(میری برداشت سہہ جائے
اگر بس ایک ہی دجال تم کو دیکھ سکتا ہو)
یہاں لیکن تمہارا سب کاسب
دنیا میں جتنے ہیں
وہ سب کے سب
میں یہ سب سہہ نہیں سکتا
تمہیں دیکھے بنا بھی رہ نہیں سکتا
مجھے بی پی کا کوئی مسئلہ پہلے نہیں تھا
ہاں مگر اب خون میرا کھولتا ہے
جب کبھی گاڑی چلاتے وقت کوئی بورڈ آ جائے
جہاں لکھا ہوا ہو "سپیڈ کم رکھیں
یہاں سے کچھ قدم آگے سڑک پر
کیمرے کی آنکھ تم کو دیکھتی ہے"
بلال اسود
No comments:
Post a Comment